ڈستھیمیا

Published: 30-09-2022

Cinque Terre

اینا بیکووس میں ڈستھیمیا کی علامات کم عمری میں ہی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔

13 سال کی عمر میں ان کو معاشی تعلقات میں مسائل، اپنی بے قدری کا احساس اور زندگی بلکل تاریک لگنا شروع ہو گئی۔ ’ میں اپنے آپ کو ایک حقیقت پسندانہ شخصیت سمجھتی تھی لیکن میں مایوس رہتی تھی۔

 

لوگ ایک ایسی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں جس میں یہ بلکل عام بات لگتی ہے۔‘ ان کے والدین کو یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ ان کی بیٹی کا رویہ غیر معمولی تھا۔ غصے اور چڑچڑے پن کا اچانک اظہار اس بات کی نشاندہی تھی کہ ان کو مدد کی ضرورت تھی۔ ’مجھے اچانک بے انتہا خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ پھر وہ اچانک ختم ہو جاتی اور اس کی جگہ غم کا احساس لے لیتا۔‘ ان علامات کے باوجود ان کی تشخیص اس وقت ممکن ہوئی جب ان کا ڈپریشن بڑھ چکا تھا۔ طبی معائنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کو ڈستھیمیا ہے۔

 

 

 

 

اینا جیسے کئی مریض مرض کی تشخیص ہونے تک کئی سال علامات کے ساتھ گزار دیتے ہیں۔ اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے مریض کا رویہ ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔ اور اسی وجہ سے مرض کی تشخیص تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے۔ مارسیلو ہائیڈ ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر ایسے مریض اسی وقت ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں جب ان کی علامات شدت اختیار کرتی ہیں اور تب ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کوئی بیماری ہے۔

 

ڈستھیمیا کیا ہے؟
ڈستھیمیا ایک ایسا متواتر ڈپریشن کا ڈس آرڈر ہے جو بچپن سے21 سال کی عمر تک ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی آبادی کا چھ فیصد حصہ اس مرض کا شکار ہے۔ ڈستھیمیا اور ڈپریشن کی عام قسم میں فرق یہ ہے کہ اس سے متاثرہ شخص عام زندگی میں تو نارمل دکھائی دیتا ہے لیکن کام کرنا، پڑھائی کرنا اور روزمرہ زندگی کے کچھ عام سے کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مارسیا ہیگ یونیورسٹی آف کیوریٹیبا میں ماہر نفسیات ہیں۔ ان کے مطابق ایسے افراد کام تو کر سکتے ہیں لیکن ان کو بہت زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس مرض کی وجوہات پر ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ بچپن میں شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنے سے، جینیات، کسی حادثے کا شکار ہونے یا معاشرتی وجوہات کی بنا پر یہ مرض ہو سکتا ہے۔ بیانکا بریڈا یونیورسٹی آف ساو پاولو میں سائیکولوجسٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب کسی ایسے مریض کی تفتیش کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بچپن میں وہ بہت خاموش سا رہتا تھا اور اس کو کام کرنے میں مشکل ہوتی تھی۔ اینا کو اس کے کام کی وجہ سے اپنے مرض کو جاننے میں مدد ملی جس میں وہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والے بچوں کو مدد فراہم کرنے والے ایک سینٹر میں کام کرتی تھیں۔

ڈستھیمیا کی شناخت کیسے ممکن ہوتی ہے؟
ڈپریشن کی دیگر اقسام کے مقابلے میں ڈستھیمیا کی علامات ڈھکی چھپی رہتی ہیں۔ طویل المدت ہونے کے علاوہ، اس کی عام علامات میں تھکاوٹ، بے قدری کا احساس، فیصلہ سازی میں مشکلات اور مایوسی شامل ہیں۔ عام ڈپریشن میں مریض کو غم کا شدید احساس ہوتا ہے، کام کرنے میں دلچسپی نہیں رہتی، بھوک کم ہو جاتی ہے اور دیگر ایسی علامات ہوتی ہیں جن کی شناخت مریض خود بھی کر سکتا ہے۔ بریڈا کا کہنا ہے کہ ڈپریشن میں علامات میں شدت ہوتی ہے جو کسی نہ کسی واقعے سے جڑی ہوتی ہے۔

یہ شخصیت کا حصہ نہیں
ڈستھیمیا ڈپریشن کی ایسی قسم ہے جس کی تشخیص مشکل سے ہوتی ہے اور اکثر مریضوں کی علامات کو ان کی شخصیت کا حصہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہی غلطی تشخیص میں تاخیر کی وجہ بنتی ہے اور مریض درست علاج حاصل کرنے میں دیر کر دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص بور ہے، یا وہ ساری زندگی سے ایسا ہی ہے، اس لیے وہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔

مارسیلو ہائیڈ کے مطابق ’ ڈستھیمیا چھپ کر آہستہ آہستہ آتا ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ اس کا اثر شدت اختیار کر لیتا ہے۔ مریض کو طرح طرح کے نام دیے جاتے ہیں جیسا کہ موڈی یا کچھ اور۔ ثقافتی طور پر اس کو تسلیم کرنے سے تشخیص نہیں ہوتی اور دوسری جانب یہ ایک ایسی شخصیت کو تقویت دیتی ہے جس میں متاثرہ لوگ ہر چیز کو منفی انداز سے دیکھتے ہیں۔‘

اینا کو سکول میں مشکلات ہوئیں لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ ایسا کیوں ہے۔ ’مجھے ہمیشہ عدم تحفظ کا احساس رہا خصوصاً محبت کے معاملے میں۔ لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ ایسا کیوں ہے۔‘ ان کا خیال تھا کہ یہ احساسات ان کے رویے کا حصہ ہیں اور وقت کے ساتھ یہ ختم ہو جائیں گے۔ تاہم ایسا نہیں ہوا اور ان کے موڈ کا اتار چڑھاؤ بڑھتا چلا گیا۔ اینا کہتی ہیں کہ ’ڈستھیمیا سے متاثر افراد کا اپنے آپ سے متنازع تعلق ہوتا ہے۔ کسی وقت آپ کو خود پر ہی غصہ آ جاتا ہے۔‘

اس کا علاج کیسے کیا جائے؟
یہ ضروری ہے کہ مریض طبی مدد حاصل کرے۔ اکثر ماہر نفسیات کے پاس جانے سے گریز کیا جاتا ہے اور کسی بیماری کی صورت میں عام ڈاکٹر سے کوئی اور تشخیص ہو جاتی ہے جس سے نقصان ہوتا ہے۔ مارسیا ہیگ کے مطابق ڈپریشن کے 50 فیصد کیسز کی تشخیص اس لیے نہیں ہو پاتی کیوں کہ عام طبی ماہرین اس کو پہچان نہیں پاتے۔ ’ پھر سوچیں ڈستھیمیا کے مریضوں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا۔ یہ عام ہے کہ اس کی علامات کو کسی اور نفسیاتی مرض سے جوڑ دیا جائے یا پھر منشیات کے استعمال سے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ڈستھیمیا اور ڈپریشن جسم کو متاثر کرتے ہیں اور کئی عام بیماریوں جیسا کہ ذیابطیس، ہائپر ٹینشن میں شدت لا سکتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو دوا کی زیادہ مقدار کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

نفسیاتی مسائل سے جڑے معاشرتی رویے کی وجہ سے یہ مرض اور بھی پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ ماہر نفسیات سے رابطہ کیا جائے تاکہ وہ معائنے کے بعد درست علاج تجویز کر سکیں جو ادویات یا پھر سائیکو تھراپی سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ جب اینا میں اس مرض کی تشخیص ہوئی تو انھوں نے سائیکو تھراپی کا راستہ چنا کیوں کہ ان کی عمر کی وجہ سے ڈاکٹر نے ادویات کا استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ چند سال اپنے کام کی وجہ سے وہ یہ سیشن نہیں لے سکیں لیکن کورونا کی وبا کے دوران انھوں نے باقاعدگی سے سائیکو تھراپی کروائی اور انھوں نے دیکھا کہ اس سے بہت بہتری آئی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس مرض کے علاج میں تعطل نہیں ہونا چاہیے جب تک ایک ماہر اس کی تجویز نہ دے تاکہ مریض کو مستقل طور پر جانچا جا سکے۔ یہ طبی علاج مہینوں یا برسوں جاری رہ سکتا ہے لیکن مریض کی علامات اور زندگی کا معیار بہتر بنانے کے لیے ایسا کرنا لازمی ہے۔

 

آج کا اخبار
اشتہارات