Published: 10-12-2022
گجرات(مدثراقبال سے)ممتازمذہبی سکالر مفتی پیرمحمد عثمان افضل قادری مراڑیاں شریف نے گزشتہ روز جسٹس (ر) نذیراحمد غازی کے ٹیوی پروگرام”شیخ سعدی کاعشق رسول ورحکمت ودانش“ موضوع پراظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ شیخ سعدیؒکانام شرف الدین اورلقب مصلح الدین اورسعدی تخلص ہے آپ شیراز میں عبداللہ شیرازی جوشیراز کے حکمران سعد زنگی کے ساتھ ملازم تھے ہاں پیداہوئے ابتدائی تعلیم والد سے ہی حاصل کی، دس سال سے بھی کم عمرمیں اپنے والد گرامی کے ساتھ شب زندہ داری کیاکرتے تھے، آپ کوبچپن ہی سے ادب اورشعروشاعری کاشوق تھا،والد کی وفات کے بعد آپ نے شیرازکے علماء سے تحصیل علوم کی شیرازسے بغداد آئے اوروہاں محدث ابن جوزی سے شرف تلمذ حاصل کیا،شیخ شہاب الدین سہروردی سے بھی آپ نے کسب فیض کیا، آپ نے سیروسیاحت بھی کی اورشام، فلسطین،مکہ مکرمہ اورایشائے کوچک اورشمالی افریقہ تک سفرکیا، شیخ سعدی نے سیاحت کے طویل سفرمیں چودہ حج بھی کیے، مفتی پیرعثمان افضل قادری کاکہناتھاکہ شیخ سعدی نے انفرادی واجتماعی زندگی اورمعاشرے کی اصلاح کے لئے کمال نصیحتیں کیں،ایسی نصیحتیں ایک ماہرفلسفی اورعظیم صوفی درویش ہی کرسکتاہے سعدی شیرازی میں تصوف وعرفان کی تمام صفات پائی جاتی ہیں آپ کواللہ تعالیٰ نے حکمت کے عظیم معاملات عطا فرمائے جواپنی مثال آپ ہیں، آپ نے فرمایاکہ کمزوروں پر رحم نہ کھانے والا طاقتوروں سے مارکھاتاہے ایک مقام پرفرماتے ہیں کہ مطالعہ غم اوراداسی کابہترین علاج ہے،زندگی کی درازی کاراز صبرمیں پنہاں ہے، اگرتم چاہتے ہو کہ تمہارا نام زندہ رہے تو اپنی اولاد کواچھے اخلاق سکھاؤ،انہوں نے کہاکہ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ جوشخص دوسروں کے غم سے بے غم ہے وہ انسان کہلانے کامستحق نہیں،پیرعثمان افضل قادری کاکہناتھاکہ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ نبی کریم کی جوثناء ہے جب تک میرے منہ میں زبان ہے محبوب آقا دوجہاں کی ثناء بیان کرتا رہوں ہمیشہ مختصرالفاظ میں عظیم بات کہہ جاتے،بہترین کلام وہ ہے جوکم ہے مگرمفاہیم زیادہ ہے جوعام ا فراد کومشکل میں نہ ڈالے، آپ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ نوشیروان عادل اپنے کسی غلام کوقریبی گاؤں میں نمک لینے کیلئے بھیجتاہے اورساتھ میں قیمت ادا کرنے کی بھی تلقین کرتاہے جس پرلوگوں نے کہاکہ یہ تو معمولی سی بات ہے اس کاکوئی حرج نہیں جس پرآپ نے فرمایاکہ ظلم جب شروع ہوتاہے تو تھوڑا سا ہوتاہے پھربڑھتاجاتاہے اگرشروع میں ہی معاملہ روک لیاجائے تو مسائل پیدانہیں ہوتے اسی طرح آپ نے صبروشکر کے حوالے سے بھی واقعات لکھے ہیں،شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ اللہ کی راہ میں تھاجوتا نہ ملا فرماتے ہیں کہ میرے ذہن میں خیال آیاکہ اللہ کی راہ میں نکلاہوں میرا جوتا مجھے میسرنہیں جس پرکچھ دیربعد ایک آدمی کودیکھتے ہیں جس کے دونوں پاؤں نہیں اوروہ اپنے جسم کوزمین پرگھسیٹ رہاہے جس پراللہ کاشکرادا کرتے ہوئے کہاکہ یااللہ جوتا پھرمل جائے گا میرے پاؤں سلامت ہیں اسی لئے ہمیں ہرحال میں اللہ کاشکرادا کرناچاہیے، مفتی پیرعثمان افضل قادری نے کہاکہ شیخ سعدی علم ودانش کاعظیم سرچشمہ ہیں جس نے مشرق تا مغرب کوسیراب کیا آپ کی شہرت اورکام کی گواہی اغیاربھی دیتے ہیں آپ کے لکھے ہوئے اشعار آج بھی اقوام متحدہ میں لکھے ہوئے ہیں آپ کے والد نے آپ کی شاندارتربیت کی جس طرح ایک عارف اپنے مرید صادق کوتزکیہ نفس کی منازل طے کراتاہے اسی طرح آپ کے والد نے قدم قدم پررہنمائی فرمائی ایک دفعہ شیخ سعدی بچپن میں والد کے ساتھ میلے میں جاتے ہیں اس دوران باپ کاہاتھ چھوڑ دیتے ہیں کھیل کود سے فارغ ہونے کے بعد دیکھتے ہیں کہ والد نہیں تو روناشروع کردیتے ہیں جب والد ملتے ہیں تو اس وقت والد نے عظیم بات فرمائی کہ جوبزرگوں کاہاتھ چھوڑ دیتاہے وہ یونہی روتا ہے جس سے سبق ملتاہے کہ بزرگوں کے ساتھ اپناتعلق واسطہ مضبوط رکھناچاہیے، مفتی عثمان افضل قادری کاکہناتھاکہ آج لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم اپنے بچو ں کی تربیت کیسے کریں تو ہمیشہ کہتاہوں کہ انہیں شیخ سعدی کی کتابیں وکلام پڑھائیں،آپ نے مشہورکلام بلغ العلیٰ بکمالہ لکھا۔