الحمد اللہ!! ڈیفالت سے بچ گئے، مشکل فیصلوں سے ہمارا نقصان ملک کا فائدہ، چوہدری قمر کائرہ

Published: 16-10-2022

Cinque Terre

لالہ موسیٰ (جمیل احمد چوہدری) وزیر اعظم کے مشیر برائے امورِ کشمیر و گلگت و بلتستان، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما چوہدری قمر زمان کائرہ نیچیمبر آف کامرس کے نومنتخب عہدیداران و ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت بہت گمبھیر مسائل کا شکار ہے اور ہم کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کو ان مسائل سے نکالا جائے۔ ملک کے مسائل کوئی ایک جماعت یا کوئی ایک ادارہ حل نہیں کرسکتا بلکہ مسائل کے حل کے لیے ہمیں اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی نے جب بھی مسائل کے حل کے لیے اتفاق رائے کا تجربہ کیا تو ماضی اس بات کا شاہد ہے کہ وہ تجربہ بہت احسن ثابت ہوا۔ جب سے ہم حکومت میں آئے ہیں ہم نے پاکستان کے عوام کو براہ راست کوئی اچھی خبر نہیں دی۔ اس وقت بجلی، تیل، اشیائے خورد و نوش سب کچھ مہنگا ہوگیا ہے۔ حکومتیں لوگوں کی تکالیف میں اضافہ کے لیے نہیں بلکہ انہیں سہولیات دینے کے لیے آتی ہیں۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ حکومت سہولتیں تبھی فراہم کرسکے گی جب اس کے پاس وسائل ہونگے۔ ہم نے مشکل فیصلے کیے اور یہ جانتے ہوئے کیے کہ ان فیصلوں کے کیا اثرات اور ثمرات ہونگے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان فیصلوں سے ہمارا سیاسی نقصان ہوا ہے۔ ہم نے مشکل فیصلے کرکے وہ راستہ اپنایا ہے کہ اگر ہم وہ راستے نہ اپناتے تو خدانخواستہ پاکستان بہت مشکل حالات کا شکار ہوجاتا۔ آج عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور دیگر ممالک پاکستان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھا رہے ہیں جبکہ آئی ایم ایف بھی ہمیں مزید سہولیات دینے کے لیے تیار ہے۔ سب لوگ تصویر کا ایک رخ دیکھاتے ہیں کہ جب سے ہماری حکومت آئی ہے تب سے عوام کی زندگی مشکل ہوگئی ہے۔ لیکن کوئی بھی تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھ سکتا۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اگر یہ سب عالمی ادارے آج ہماری مدد کو نہ آتے تو آج ہم کہاں کھڑے ہوتے؟ اس سال کے اندر حکومت پاکستان کو کم از کم 22ارب ڈالر چاہئیں۔ اگر ہمارے ساتھ ان عالمی اداروں کا تعاون نہ ہوتا تو ہم ڈیفالٹ کرجاتے۔ مشکل فیصلوں کا ہمیں نقصان ہوا لیکن ملک کو اس کا فائدہ ہوا۔ مفتاح اسماعیل نے بھی وزیر خزانہ کے طور پر اچھی کوشش کی۔ جب سے وزارت خزانہ کا قلمدان اسحاق ڈار کو ملا ہے تب سے ملک میں ڈالر کا واضع جھکاؤ آیا ہے۔ اسحاق ڈار ایک تجربہ کار آدمی ہیں۔ اگلے چند ماہ میں ہم اسے 200کی رینج میں لانے کی کوشش کریں گے۔ اگر ڈالر 200کا ہوجائے گا تو عوام اور تاجروں کو ریلیف ملے گا۔ لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے تیل کی قیمتیں کم کی گئی ہیں۔ اب ہماری پوری توجہ اس چیز کے اوپر ہے کہ بجلی کے نرخوں میں بھی کمی کی جائے۔ سیلاب زدگان اپنی زندگی کے سب اثاثے گنوا چکے ہیں۔ کسان کے اثاثے بینکوں میں نہیں ہوا کرتے بلکہ اس کی فصل اس کا اثاثہ ہوتی ہے۔ ان کی مدد کے لیے حکومت پاکستان نے اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ ان کی طرف موڑ دیے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اگر سیلاب نہ بھی آتا تب بھی ہم اس سال 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرتے۔ ہم پیاز، ٹماٹر، مرچیں، آئل وغیرہ بیرون ممالک سے منگواتے ہیں۔ ہمیں غذائی تحفظ کو بھی یقینی بنانا ہے کیونکہ غذائی تحفظ براہ راست ہماری قومی تحفظ کے ساتھ منسلک ہے۔ کسی بھی ریاست کے لیے یہ بہت بڑا سوال ہے کہ اگر کسی ملک کی آمدن 9000ارب روپے ہو اور اس کا خرچہ 14000ارب روپے ہو اور اگلے سال اگر آپ کی آمدن بڑھنے کے ساتھ خرچے میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے تو آپ 5000ارب کا خلا کیسے پر کریں گے؟ کسان کہہ رہا ہے کہ انہیں سستی کھاد فراہم کی جائے، صنعت کار کہہ رہا ہے کہ انہیں سستی بجلی فراہم کی جائے اور ٹیکسوں میں کمی کی جائے تبھی برآمدات میں اضافہ ممکن ہوسکے گا۔ ملازمت پیشہ افراد تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ منتخب نمائندوں پر یہ پریشر ہوتا ہے کہ ان کے علاقوں میں ترقیاتی کام ہونے چاہئیں۔ جس حکومت نے یہ سب وسائل فراہم کررہے ہیں وہ یہ سب کچھ کیسے کرے گی؟ بیلنس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کابینہ میں جب یہ معاملہ اٹھایا گیا تو وزیر اعظم نے کہا کہ سب لوگ ریلیف کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن قوم اپنی عادات بدلنے، ہم بچت کرنے، ٹیکس کے تیاسب میں استدلال لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں لیکن ہماری دنیا کے سامنے ہماری صورتحال بھکاریوں والی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید کوئی بھی ایسی حکومت نہیں آئی جس نے قرضہ نہ لیا ہو۔ ہم اب تک ادھار یا امداد کے پیسوں پر چلتے آئے ہیں۔ ہماری معیشت کا عالم یہ ہے کہ ہمارے پاس وسائل موجود ہیں لیکن ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ وسائل اس کی جیب سے نہیں بلکہ کسی دوسرے کی جیب سے نکال لیے جائیں۔ کوئی بھی قربانی دینے کو تیار نہیں۔دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس نے اپنے بل پر محنت کر کے کامیابی حاصل کی ہو اور صبح جلدی نہ جاگتی ہو۔ کامیاب اقوام کا یہ اسلوب رہا ہے کہ وہ صبح جلدی اٹھ کر کام پر جاتے ہیں اور شام ڈھلتے ہی گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ جن اقوام نے اپنے علم، محنت اور جدوجہد کے بعد کامیابی حاصل کی ہے انہوں نے اپنی عادات میں تبدیلی بھی لائی ہے۔ جب ہم ذکر کرتے ہیں کہ 8بجے بازاروں کو بند کردیا جائے تو ہنگامہ ہوجاتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب مرکز میں پی پی پی اور پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت تھی تب میں نے تاجروں کے ایک گروپ سے پوچھا کہ کیا لوگ چیزیں اپنے ضرورت کے تحت خریدتے ہیں یا وقت دیکھ کر خریدتے ہیں؟ پاکستانی اشیاء کی خریداری اپنی ضرورت کے تحت کرتے ہیں، اگر انہیں یہ علم ہوگا کہ بازار جلدی بند ہوجائیں گے تو وہ بازاروں کا رخ جلدی کرلیں گے۔ اگر پورے ملک کے بازار ایک ہی وقت میں بند کر دیے جائیں تو زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ میں لوگ اپنی عادات تبدیل کرلیں گے۔ حکومت کی آمدن خالصتاً ٹیکس ہے۔

آج کا اخبار
اشتہارات